شاعر علی شاعر ۔۔۔ دو غزلیں

ہم ذرا دیر ہی رونے سے بہل جاتے ہیں
اشک پلکوں میں پرونے سے بہل جاتے ہیں

ہم سے خاموش صفت لوگ بھی ہوتے ہیں عجب
اِک دلاسے کے کھلونے سے بہل جاتے ہیں

کتنے محرومِ تمنا ہیں غریبوں کے عیال
جو کہ خواہش کے بچھونے سے بہل جاتے ہیں

اپنی قسمت میں کہاں بارشِ نکہت، ہم تو
ہاتھ بوندوں میں بھگونے سے بہل جاتے ہیں

کون ہوتے ہیں جو فرصت سے سنورتے ہوں گے
ہم فقط چہرے کو دھونے سے بہل جاتے ہیں

ہم نے کُرتے پہ بٹن ٹانکنے والی سے کہا
ہم تری سوئی چبھونے سے بہل جاتے ہیں

یہ حویلی کا بڑا صحن مبارک ہو تمھیں
ہم سے نادان تو کونے سے بہل جاتے ہیں

اپنا ہوتا وہ اگر غیر نہ ہوتا شاعرؔ
ہم اِسی ہونے نہ ہونے سے بہل جاتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گردِ ملال چہرے پہ مَلتا رہا ہوں مَیں
سڑکوں پہ دھوپ اوڑھ کے چلتا رہا ہوں مَیں

کارِ ہنر ہے کوئی نہ کارِ نمایاں کچھ
سائے کا کام ڈھلنا ہے، ڈھلتا رہا ہوں مَیں

وعدہ ہوں اور وعدے کی تقدیر کی طرح
فردا کے روز روز پہ ٹلتا رہا ہوں مَیں

دنیا کی ٹھوکروں نے ہی جینا سکھایا ہے
رہ رہ کے تیرگی میں اُجلتا رہا ہوں مَیں

دیوار و در میں قید رہا ساری زندگی
کہنے کو روز گھر سے نکلتا رہا ہوں مَیں

اوروں کا دو قدم بھی سہارا نہیں لیا
گر گر کے اپنے آپ سنبھلتا رہا ہوں مَیں

شاعرؔ نہیں ہے مجھ کو مقدر سے کچھ گلہ
سورج ہوں اپنی آگ میں جلتا رہا ہوں مَیں

Related posts

Leave a Comment